اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفیل حاشیہ نمبر۴

اصل میں الفاظ ہیں فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ یعنی ان کی تدبیر کو اُس نے ”گمراہی میں ڈال دیا“۔ لیکن محاورے میں کسی تدبیر کو گمراہ کر نے کا مطلب اُسے ضائع کر دینا  اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام کردینا ہے، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص کا کوئی داؤں نہ چل سکا، یا اس کا کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَمَا کَیْدُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ  ” مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی“(المومن۔۲۵)۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوا وَاَنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخآئِنِیْنَ ” اور یہ کہ اللہ خائنوں کی چال کو کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا“(یوسف ۵۲) اہلِ عرب امرؤ القیس کو اَلْمَلِکُ الضَّلِیْل ، ”ضائع کرنے والا بادشاہ“ کہتے تھے، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے پائی ہوئی بادشاہی کو کھو دیا تھا۔