اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفیل حاشیہ نمبر۶

اصلی الفاظ ہیں بَحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ، یعنی سجّیل کی قسم کے پتھر۔ ابن عباس ؓ  فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گِل کا مُعَرَّب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہواور پک کر سخت ہو گیا ہو۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ سورۂ ہود ، آیت ۸۲ اور سورۂ حِجْر، آیت ۷۴ میں کہا گیا ہے کہ قومِ لوط پر سِجّیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے، اور اُنہی پتھروں کے متعلق سورۂ ذاریات آیت ۳۳ میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حِجارۃ مِن طین ، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے۔

مولانا حمید الدین فَراھی مرحوم و مغفور ، جنہوں نے عہدِ حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے ، اِس آیت میں تَرْمِیْہِم کا فاعل اہلِ مکّہ اور دوسرے اہلِ عرب کو قرار دیتے ہیں جو اَلَمْ تَرَ کے مُخاطَب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریزے نہیں پھینک رہے تھے ، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔ اِس تاویل کے لیے جو دلائل اُنہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطّلب کا ابرھہ کے پاس جا کر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا  مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے ، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے  عربوں نے، جو چح کے لیے آئے ہوئے تھے، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چُھپے ہوں۔ اس لیے  صورت ِ واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے ، اور اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھُرکس نکال دیا، پھر پرندے اُن لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبد المطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر نے گئے تھے، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ  نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرّم میں آیا تھا جبکہ حُجّاج واپس جا چکے تھے۔ اور یہ بھی ہم نے  بتا دیا ہے کہ ۶۰ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا، وہ تو غَزْوَۂ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی، پھر بھلا وہ ۶۰ ہزار فوج کرنے کی کیسے ہمت کر سکتے تھے۔ تاہم اِن ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور صرف سُورۂ فیل کی ترتیب ِ کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اُس کے خلاف پڑتی ہے۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے، اور اصحابِ فیل بھُس  بن کر رہ گئے ، اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْ مِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ (تم ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے، پھر اللہ نے اُن کو کھائے  ہوئے بھُس جیسا کر دیا، اور اللہ نے اُن پر جھُنڈ کے جُھنڈ  پرندے بھیج دیے)۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھُنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے ، پھر اُس کے مُتَّصلاً بعد ترمیہم بِحِجَارَۃ ٍمِّنْ سِجِّیْل (جو ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے) فرمایا ہے، اور آخر میں کہا ہے کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھُس جیسا کر دیا۔