اس رکوع کو چھاپیں

سورة قریش حاشیہ نمبر۱

اصل الفاظ ہیں لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ۔ اِیْلاف اَلْف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے، مانوس ہو نے، پھٹنے کے بعد مِل جانے اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں۔ اردو زبان میں اُلفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ اِیلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے  ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجُّب کے معنی میں ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں کہ لِزَیْدٍ وَّمَا صَنَعْنَا بِہٖ، یعنی ذرا اِس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ پس لِاِیْلٰفِ قُریْشٍ  کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑ ا ہی قابلِ تعجب ہے۔ کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعدجمع ہوئے اور اُن تجارتی سفروں کے خوگر ہو گئے جو اُن کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے رُو گردانی کر رہے ہیں۔ یہ رائے اَخْفَش ، کِسائی اور فرّ اء کی ہے، اور اِس رائے کو ابنِ جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے بعد کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کےلیے کافی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے ہوتے جو شخص جو رویہ اختیار کر رہاہے وہ قابلِ تعجب ہے۔ بخلاف اِس کے کہ خلیل بن احمد، سِیْبَوَیْہ اور زَمَخْشری کہتےہیں  کہ یہ لامِ تعلیل ہے اور اِس کا تعلق آگے کے فقرے  فَلْیَعْبُدُ وْ ا رَبَّ  ھٰذَ ا الْبَیْتِ سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اِسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اُس کے فضل سے وہ اِن تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے ،  کیونکہ یہ بجائے خود اُن پر اُس کا بہت بڑا احسان ہے۔