اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۱

تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر قرآن کا اندازِ بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموماً ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے ۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اور اس کا مطلب جاننا، سمجھنا ور غور کرنا بھی ہے ۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ”میں دیکھ رہا ہوں“ اور مطلب یہ ہوتاہے کہ میں جانتا ہوں، یا مجھے خبر ہے۔ یا مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ”ذرا یہ بھی تو دیکھو“ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو۔ پس اگر لفظ اَرَءَیْتَ کو اِس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ”جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے“؟ یا ”تم نے غور کیا اُس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے“؟