اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۱۰

یہ فقرہ ایک مستقل فقرہ بھی ہوسکتا ہے اور پہلے فقرے سے متعلق بھی۔ اگر اسے ایک مستقل فقرہ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی نیک کام بھی وہ خالص نیت کے ساتھ خدا کے لیے نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کرتےہیں دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی تعریف  ہو، لوگ ان کو نیکو کار سمجھیں ، ان کے کارِ خیر کا ڈھنڈورا دنیا میں پِٹے، اور اس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں انہیں دنیا  ہی میں حاصل ہو جائے۔ اور اگر اس کا تعلق پہلے فقرے کے ساتھ مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ مفسّرین نے بالعموم دوسرے ہی معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ پہلی نظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا تعلق پہلے فقرے سے ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں،”اس سے مراد منافقین ہیں جو دکھاوے کی نماز پڑھتے تھے، اگر دوسرے لوگ موفود ہوتے تو پڑھ لیتے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا تو نہیں پڑھتے تھے“۔ دوسری روایت میں اُن کے الفاظ یہ ہیں: ”تنہا ہوتے تو نہ پڑھتے اور عَلانیہ پڑھ لیتے تھے“ (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب)۔ قرآن مجید میں بھی منافقین کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِیْلًا۔ ”اور جب وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کَسْمَساتے ہوئے اُٹھتے ہیں، لوگوں کو دکھاتے ہیں ، اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں“(النساء۔ ۱۴۲)