اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۵

اصل میں یَدُعُّ الْیَتِیْمَ کا فقرہ استعملا ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھا تا ہے اور اس کے  باپ کو چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دَھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہ اپنی پریشان حالی کی بنا پر رحم کی امید لیے ہوئے کھڑا رہے تو اسے دھکّے دے کر دفع کر دیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے ، مثلاً اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں سارے گھر کی خدمتگاری کرنے اور بات بات پر جھڑکیاں  اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں  ہوتا۔ علاوہ بریں اِس فقرے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ اُس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد  نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویّہ یہی ہے۔ اُسے یہ احساس ہی نہیں  ہے کہ یہ کوئی بُرا کام ہے جو وہ کر رہا ہے۔ بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بےبس اور بے یار و مددگار مخلوق ہے ، اس لیے کوئی ہرج نہیں اگر اس کا حق مار کھایا جائے، یا اسے ظلم و ستم کا تختہ ٔ مشق بنا کر رکھا جائے ، یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اُسے دَھتکار دیا جائے۔

اس سلسلے میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن لماوَرْدِی نے اپنی کتاب اَعلامُ النُّبُوَّۃ میں لکھا ہے۔ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا۔ وہ بچہ ایک روز اِس حالت میں اُس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے۔ اوراس نے التجا کی کہ اُس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اُسے کچھ دیدے۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجّہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر کا ر مایوس ہو کر پلٹ گیا۔ قریش کے سرداروں نے ازراہِ شرارت اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر شکایت کر،  وہ ابو جہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے۔ بچہ بے چارہ ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضور ؐ سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اُسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ سیدھا حضور ؐ کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ ؐ سے بیان کیا۔ آپ ؐ اُسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابو جہل کے ہاں تشریف لے گئے ۔ آپؐ کو دیکھ کر اُس نے آپ ؐ کا استقبال کیا اور جب آپؐ  نے فرمایا کہ اِس بچے کا حق اِسے دے دو۔ تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لا کر اسے دے دیا۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ، اِن دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے ۔ وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران  ہو کر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم ، میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی۔ اِس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بے یار و مددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتاہ ے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اِس اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا۔ اِسی قِسم کا ایک واقعہ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن ، جلد سوم ،صفحہ ۱۴۶ پر نقل کر چکے ہیں جو حضور ؐ کے اُس زبردست اخلاقی رعب پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے کفارِ قریش آپ کو جادوگر کہتے تھے۔