اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۷

لَا یَحُضُّ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اِس کام پر آمادہ نہیں کرتا، اپنے گھر والوں کو بھی یہ نہیں کہتا کہ مسکین کا کھانا دیا کریں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی اِس بات پر نہیں اُکساتا تا کہ معاشرے میں جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے حقوق پہچانیں اور ان کو بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں۔

 یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف دو نمایاں ترین مثالیں دے کر دراصل یہ بتایا ہے کہ اِنکارِ آخرت لوگوں میں کس قسم کی اخلاقی برائیاں پیدا کرتا ہے۔ اصل مقصود اِن دو ہی باتوں پر گرفت کرنا نہیں ہے کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ یتیموں کو دھتکار تے ہین اور مسکینوں کو کھانا  دینے پر نہیں اُکساتے۔ بلکہ جو بے شمار خرابیاں اِس گمراہی کے نتیجے میں رُونما ہوتی ہیں ان میں سے دو ایسی چیزیں بطور ِ نمونہ پیش کی گئی ہیں جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں۔ اِس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے  کہ اگر یہی شخص خدا کے حضور اپنی حاضری اور جواب دہی کا قائل ہوتا تو اس سے ایسی کمینہ حرکتیں سرزد نہ ہوتیں کہ یتیم کا حق مارے، اس پر ظلم ڈھائے ، اس کو دُھتکارے، اور مسکین کو نہ خود کھلائے نہ کسی سے یہ کہے کہ اس کا کھانا اس کو دو۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں کے اوصاف تو وہ ہیں جو سورۂ عصر اور سُورۂ بلد میں بیان کیے گئے ہیں کہ وَتَوَا صَوْ ا بِالْحَقِّ  (وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں) اور وَتَوَا صَوْ ا بِا لْمَرْحَمَۃ (وہ ایک دُوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں)۔