اس رکوع کو چھاپیں

سورة الماعون حاشیہ نمبر۹

فِیْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ نہیں کہا گیا ہے بلکہ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَ کہا گیا ہے۔ اگر فی صَلوٰ تِہِمْ کے الفاظ استعمال ہوتے تو مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی نمازمیں بھولتے ہیں۔ لیکن نماز پڑھتے پڑھتے کچھ بھول جانا شریعت  میں نفاق تو درکنار گناہ بھی نہیں ہے ، بلکہ سرے سے کوئی عیب یا قابل ِ گرفت بات تک نہیں ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی وقت نماز میں بھول  لاحق ہوئی ہے۔ اور حضور ؐ نے اپس کی تلافی کے لیے سجدۂ سَہْو کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔ اِس کے بر عکس عَنْ صَلوٰ تِہِمْ سَاھُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی نماز سے غافل ہیں۔ نماز پڑھی تو اور نہ پڑھی تو ، دونوں کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کبھی پڑھتے  ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے۔ پڑھتے ہیں تو اِس طرح کہ نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں اور جب وہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے کہ تو اُٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتے ہیں۔ یا نماز  کے لیے اُٹھتے ہیں تو بے دلی کے ساتھ اٹھتے ہیں، اور بادل ناخواستہ پڑھ لیتے ہیں جیسے کوئی مصیبت ہے جو ان پر نازل ہو گئی ہے۔ کپڑوں سے کھیلتے ہیں۔ جماھیاں لیتے ہیں۔ خدا کی یاد کا کوئی شائبہ تک ان کے اندر نہیں ہوتا۔ پوری نماز میں نہ اُن کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں ، اورنہ یہ خیال رہتا ہے  کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے۔ پڑھ رہے ہوتے ہیں نماز اور دل کہیں اور پڑا رہتا ہے۔ مارا مار اِس طرح پڑھتے ہیں کہ نہ قیام ٹھیک ہوتا ہے اور رکوع نہ سجود۔ بس کسی نہ کسی طرح نماز کی سی شکل بنا کر جلدی سے جلدی فارغ ہو جانے کی کو شش کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو ایسے ہیں  کہ کسی جگہ پھنس گئے تو نماز پڑھ لی ، ورنہ اِس عبادت کا کوئی مقام ان کی زندگی میں نہیں ہوتا۔ نماز کا وقت آتا ہے تو انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ نماز کا وقت ہے۔ مؤذّن کی آواز کان میں آتی ہے تو انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ یہ کیا پکار رہا ہے، کس کو پکار رہا ہے اور کس لیے پکار رہا ہے۔ یہی آخرت پر ایمان نہ ہونے کی علامات ہیں۔ کیونکہ دراصل اسلام کے مدّعیوں کا یہ طرزِ عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ نہ نماز پڑھنے پر کسی جزا کے قائل ہیں اور نہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اس کے نہ پڑھنے پر کوئی سزا ملے گی۔ اسی بنا پر حضرت اَنَس ؓ بن مالک اور عطاء بن دِینار کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے اس نے فِیْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ نہیں بلکہ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَ فرمایا ۔ یعنی ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہوگا۔
قرآن مجید میں منافقین کی اِس کیفیت کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَاْ تُوْنَ الصَّلوٰۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالیٰ وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کٰرِھُوْنَ،” وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کَسْمَساتے ہوئے اور (اللہ کی راہ میں) خرچ نہیں کرتے مگر بادل ناخواستہ“(التوبہ۔۵۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تلک صلوٰۃ المنافق، تلک صلوٰۃ المنافق، تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتّٰی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فنقرار بعًا لا یذکر اللہ فیہا الّا قلیلا ” یہ منافق کی نماز  ہے۔یہ منافق کی نماز  ہے۔ یہ منافق کی نماز  ہے۔ عَصر کے وقت بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے (یعنی غروب کا وقت قریب آجاتا ہے) تو اُٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے  جن میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے“۔(بخاری۔ مسلم۔ مُسند احمد)۔ حضرت سعد ؓ بن ابی وَقّاص سے ان کے صاحبزادے مُصْعَب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا جو نماز سے غفلت برتتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ  وہ لوگ ہیں جو نماز کو اُس کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں (ابن جریر، ابو یَعلیٰ۔ ابن المُنْذِر۔ ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی فی الاوسط۔ ابن مَرْدُوْیَہ۔ بیہقی فی اسُّنَن۔ یہ روایت حضرت سعد کے اپنے قول کی حیثیت سے بھی موقوفًا نقل ہوئی ہے اور اُس کی سند زیادہ قوی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کی حیثیت سے اِس کی مرفوعًا روایت کو بیہقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیا ہے)۔ حضرت مصعب کی دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں  نے اپنے والد ماجد سے پوچھا کہ  اِس آیت پر آپ نے غور فرمایا؟ کیا اِس کا مطلب نہیں کو چھوڑ دینا ہے؟ اِس سے مراد نماز پڑھتے پڑھتے آدمی کا خیال کہیں اور چلا جانا ہے؟ خیال بٹ جانے کی حالت ہم میں سے کس پر نہیں  گزرتی؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، اِس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کرپڑھنا  ہے ( ابن جریر، ابن ابی شَیْبَہ، ابو یَعلیٰ، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُوْیَہ ، بیہقی فی السنن)۔

اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نماز میں دوسرے خیالات کا آجانا اور چیز ہے اور نماز کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہونا اور اس میں ہمیشہ دوسری باتیں ہی سوچتے رہنا بالکل دوسری چیز۔ پہلی حالت تو بشریت کا تقاضا ہے، بلا اِرادہ دوسرے خیالات آہی جاتے ہیں ، اور مومن کو جب بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ نماز سے اپس کی توجہ ہٹ گئی ہے تو وہ  پھر کوشش کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ دوسری حالت نماز سے غفلت برتنے کی تعریف میں آتی ہے، کیونکہ اس میں آدمی صرف نماز کی ورزش کر لیتا ہے، خدا کی یاد کا کوئی ارادہ اس کے دل میں نہیں ہوتا، نماز شروع کرنے سے سلام پھیرنے تک ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اور جن خیالات کو لیے ہوئے وہ نماز میں داخل ہوتا ہے اُنہی میں مستغرق رہتا ہے۔