اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النصر حاشیہ نمبر۱

فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکّر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عرب میں اِسی دین کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ بعض مفسّرین نے اس سے مراد فتحِ مکّہ لی ہے۔ لیکن فتح مکّہ سن ۸ ھجری میں ہوئی ہے اور اِس سورہ کا نزول سن ۱۰ ھجری  کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہؓ بن عمر اور  حضرت سَرّاء ؓ بنت نَبْہان کی اُن روایات  سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں ، حضرت عبد اللہ  بن عباسؓ کا یہ قول بھی اِس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکّہ ہو تو پوری سورۂ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ  کیسے ہو سکتی ہے۔ بلا شبہ فتح مکّہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمّتیں پست کر دی تھیں ، مگر اُس کے بعد بھی اُن میں کافی دَم خَم باقی تھا۔ طائف اور حُنَین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمّل ہونے میں تقریبًا دو سال صرف ہوئے۔