اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة النصر

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :   پہلی آیت اَذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ کے لفظ نصر کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :   حضرت عبداللہؓ بن عباس کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمّل سورہ حضورؐ پر نازل نہیں ہوئی۔ ۱؎ (مسلم، نَسائی، طَبَرانی، ابن ابی شَیبہ، ابن مَرْدُوْیَہ)۔

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ یہ سورت حَجّۃ الوداع کے موقع پر ایّامِ تشریق کے وسط میں بمقامِ منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور ؐ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا (تِرمِذی، بَزّار، بَیْہَقِی، ابن ابی شَیبہ، عبد بن حُمَید، ابو یعلیٰ، ابن مَرْدُوْیَہ)۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سَرّ اء بنت نَبْہان کی روایت سے حضورؐ کا وہ خطبہ نقل کیا ہے  جو آپ نے اِس موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ:
” میں نے حَجّۃ الوداع میں حضور ؐ کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا یہ ایّامِ تشریق  کے بیچ کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے پوچھا جانتے ہو  یہ کونسا مقام ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ مَشْعَرِ حرام ہے۔ پھر حضور ؐ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا، شاید اِس کے بعد میں تم سے مل  نہ سکوں۔ خبردار رہو، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے  پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے۔ سنو، یہ بات تم میں سے قریب والا دُور والے تک پہنچا دے۔ سُنو، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا؟ اِس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ  واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضورؐ کا انتقال ہو گیا۔“
اِن دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نَصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان ۳ مہینے کچھ دن کا فصل تھا ، کیونکہ تاریخ کی رو سے حَجۃ الوداع اور حضورؐ کے وِصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گزرا  تھا۔
ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو حضورؐ نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا ( مُسند احمد، ابن جریر، ابن المُنْذِر، ابن مردویہ)۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے منقول ہوئی ہیں اُن میں بیان کیا گیا ہےکہ اِس سورۃ کے نزول سے حضورؐ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپؐ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے (مُسند احمد، ابن جریر، طَبَرانی، نَسائی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ)۔
ام المومنین حضرت امِّ حبیبہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو حضورؐ نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہو نے والا ہے۔ یہ بات سُن کر حضرت فاطمہ ؓ رو دیں۔ اِس پر آپؐ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آکر ملو گی۔ یہ سُن کر وہ ہنس دیں (ابن ابی حاتم، ابن مردویہ)۔ قریب قریب اِسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباسؓ سے نقل کی ہے۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے غَزْوَہ ٔ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑَ شیوخ کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔ یہ بات بعض بزرگوں کو نا گوار گزری اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لڑکے بھی تو اِسی لڑکے جیسے ہیں، اِس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریک ِ مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمانؓ  بن عَوف تھے)۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اِس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔ پھر ایک روز اُنہوں نے شیوخِ بدر کو بلایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ بُلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھے یہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک  کیا جاتا ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت عمرؓ نے شیوخ        بدر سے پوچھا کہ آپ حضرات اِذَا جَآ ءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا  اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا ابن عباسؓ کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں ۔ انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اَجل ہے۔ اس میں حضورؐ کو خبر دی گئی ہے کہ جب اللہ کی نصرت آجائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس  بات کی علامت ہے کہ آپؐ کا وقت آن پورا ہوا ، اِس کے بعد آپؐ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا  میں بھی اُس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔ ایک روایت میں اس پر  یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے شیوخِ بدر سے فرمایا  آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اِس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آپ نے دیکھ لی (بخاری، مُسند احمد، تِرْمِذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بَغَوِی، بَیْہَقِی، ابن المُنْذِر)۔

موضوع اور مضمون :   جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے ، اِس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہوجائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا  جس کے لیے آپؐ دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد آپؐ کو حکم دیا گیا  کہ آپؐ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول  ہو جائیں کہ اُس کے فضل سے آپؐ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہو ئے ، اور اُس سے دعا کریں کہ اِس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپؐ سے ہوئی ہو اُسے وہ معاف فرمادے۔ اِس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے۔ کسی دنیوی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلابِ عظیم برپا کرنے  میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ جشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد، افکار، عادات، اخلاق، تمدّن، تہذیب ، معاشرت، معیشت، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو  اُٹھا کر اِس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخّر کرڈالے اور اقوامِ عالم کی امام بن جائے،  مگر ایسا عظیم کارنامہ اُس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اُسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ، اور وہ پوری عاجزی  کے ساتھ اس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْ بُ اِلَیْکَ (بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سُبْحَانَ اللہِ وَبَحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے ۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپؐ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کہا کروں اور وہ ہے اَذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتَحُ (مُسند احمد، مسلم ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ)۔ اسی سے ملتی جُلتی بعض روایات میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آپؐ  اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ یہ قرآن (یعنی سورۂ نصر) کی تاویل تھی جو آپؐ نے فرمائی تھی (بخاری، مسلم، ابو داؤد، نَسائی، ابن ماجہ، ابن جریر)۔
حضرت اُمِّ سَلَمہؓ فرمانی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبار ک پر آپؐ کے آخری زمانۂ حیات میں اُٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری  رہتے: سُبْحَانَ اللہِ وَبَحَمْدِہٖ میں نے ایک روز پوچھا کہ یا رسول اللہ آپؐ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں ؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپؐ نے یہ سورۃ پڑھی(ابن جریر)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے: سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ، سُبْحَا نَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ، اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ۔ (ابن جریر ، مُسند احمد، ابن ابی حاتم)۔
          ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اِس قدر شدّت  کے ساتھ مشغول ہوگئے  جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے (نَسائی، طَبَرانی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ)۔


۱؎ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے بعد بعض آیات نازل ہوئی ہیں۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ قرآن  کی وہ آیت کون سی ہے ، جو حضورؐ پر سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ بخاری و مسلم میں حضرت براءؓ بن عازِب کی روایت یہ ہے کہ وہ سورۂ نساء کی آخری آیت یَسْتَفْتُوْنَکَ ، قُلِ اللہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ ہے۔ امام بخاری نے ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ آیت ربوٰ یعنی جس آیت میں سود کی حرمت کا حکم دیا گیا ہے ، قرآن کی سب سے آخری آیت ہے، بلکہ حضرت عمرؓ کا قول یہ ہے کہ یہ سب سے آخر میں نازہ ہونے والی آیات میں سے ہے۔ ابو عبید نے فضائل القرآن میں امام زُہری کا، اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت سعید بن المُسیَّب کا قول نقل کیا ہے کہ آیتِ ربوٰ اور آیتِ دَین (یعنی سورۂ بقرہ رکوع ۳۹،۳۸) قرآن میں نازل ہونے والی آخری آیات ہیں۔ نَسائی، ابن مردویہ اور ابن جریر نے حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کا ایک دوسرا قول نقل کیا ہے کہ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ (البقرہ، ۲۸۱) قرآن کی آخری آیت ہے۔ الفِرْیابی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کا جو قول نقل کیا ہے ، اس میں یہ اضافہ ہے کہ یہ آیت حضورؐ کی وفات سے ۸۱ دن پہلے نازل ہوئی تھی  اور  سعید بن جبیر کا قول جو ابن ابی حاتم  نے نقل کیا ہے ، اس میں اس آیت کے نزول اور حضورؐ کی وفات کے درمیان صرف ۹ دن کا فصل بیان کیا گیا ہے۔ امام احمد کی مُسند اور امام حاکم کی المستدرک میں حضرت اُبی بن کعب کی روایت یہ ہے کہ سورۂ توبہ کی آیات ۱۲۸، ۱۲۹ سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ واپس


www.tafheemulquran.net