اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النصر حاشیہ نمبر۳

حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اُس کا شکر  ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کو ہر لحاظ سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے ربّ کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اُس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اِس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اِس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اِس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے ، بلکہ اِس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اِس پر اُس کا شکر ادا کرو ، اور قلب و زبان سے اِس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور مُنَزَّہ قرار دو کہ اُس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اُس پر  منحصر تھا۔ اِس کے بر عکس  تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی  اللہ کی تائید و نصرف پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اِس کے علاوہ  تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے ۔ جب کوئی مُحِیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اُس سے صادر ہو سکتا۔