اس رکوع کو چھاپیں

سورة اللھب حاشیہ نمبر۲

ابو لہب سخت بخیل اور زرپرست آدمی تھا۔ ابن اَیثر کا بیان ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں ایک مرتبہ اُس پر یہ الزام بھی لگا یا گیا تھا کہ اس نے کعبہ کے خزانے میں سے سونے کے دو ہرن چرا لیے ہیں۔ اگرچہ بعد میں وہ ہرن ایک اور شخص کے پاس سے برآمد ہوئے، لیکن بجائے خود یہ بات  کہ اُس پر یہ الزام لگایا گیا، یہ ظاہر کرتی ہے کہ مکّہ کے لوگ اُس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ اُس کی مالداری کے متعقل قاضی رشید بن زبیر اپنی کتاب الذَّخائِر و التُّحَف میں لکھتے ہیں کہ وہ قریش کے اُس چار آدمیوں میں سے ایک تھا جو ایک قِنطار سونے کے مالک تھَ(قِنطار دو سو اَوقیہ کا اور ایک اَوقیہ سوا تین تولہ کا ہوتا ہے)۔ اُس کی زرپرستی کا اندازہ اِس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر ، جبکہ اُس کے مذہب کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا ، قریش کے تمام سردار لڑنے کے لیے گئے، مگر اُس نے عاص بن ہِشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ یہ اُس چار ہزار درہم قرض کا بدل ہے جو میرا تم پر آتا ہے ۔ اِس طرح اُس نے اپنا قرض وصول کرنے کی بھی ایک ترکیب نکال لی، کیونکہ عاص دیوالیہ ہو چکا تھا اور اُس سے رقم ملنے کی کوئی امید نہ تھی۔

مَا کَسَبَ کو بعض مفسّرین نے کمائی کے معنی  میں لیا ہے، یعنی اپنے مال سے جو مَنافِع اُس نے حاصل کیے ہو اُس کا کسب تھے۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد  اولاد لی ہے، کیونکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آدمی کا بیٹا بھی اُس کا کسب ہے (ابو داؤد۔ ابن ابی حاتم)۔ یہ دونوں معنی ابو لہب کے انجام سے  مناسبت رکھتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عَدَسَہ کے مرض میں مبتلا ہوا تو اس کا مال بھی اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کی اولاد  نےبھی اسے بے کسی کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اُس کا جنازہ تک عزت  کے ساتھ اٹھانے کی اس اولاد کو توفیق نہ ہوئی۔ اِس طرح چند ہی سال کے اندر لوگوں نے اس پیشنگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا  جو ابو لہب کے متعلق اِس سورہ میں کی گئی تھی۔