اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاخلاص حاشیہ نمبر۲

یعنی میرے جس رب سے تم تعارُف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے۔ یہ اُن سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا ربّ لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت ، دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر، میں تم سے کروانا چاہتا ہوں، بلکہ وہ ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو۔ ” اللہ“ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالقِ کائنات کے لیے یہی لفظ استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اِس کا اِطلاق نہیں کرتے تھے۔ دوسرے معبودوں کے لیے اُن کے ہاں اِلٰہ کا لفظ رائج تھا۔ پھر اللہ کے بارے میں اُن کے جو عقائد تھے اُن کا اظہار اُس موقع پر خوب کھُل کر  ہو گیا تھا جب اَبْرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اُس وقت  خانہ ٔ کعبہ میں ۳۶۰ اِلہٰوں کے بت موجود تھے، مگر مشرکین نے اُن سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اِس بلا سے اُن کو بچائے۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ اِس نازک وقت میں اُن کی مدد نہیں کر سکتا۔ کعبے کو بھی وہ اُن اِلہٰوں کی نسبت سے بیتُ الْآ لِہَہ نہیں، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیتُ اللہ کہتے تھے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر:
سُورۂ زُخْرُف میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ  اِنہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “(آیت ۸۷)۔
سُورۂ عَنْکَبُوت میں ہے: ”اگر تم اِن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین  کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مُسخّر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اُس کے  ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو  جِلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے“(آیات ۶۱ تا ۶۳)۔
سورۂ مومنون میں ہے: ”اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اِس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔۔۔۔۔۔ اِن سے پوچھو ساتوں آسمان اور عرشِ عظیم کا ملک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے  اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور  جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے“ (آیات ۸۴ تا ۸۹)۔
سورۂ یونس میں ہے: ”اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں  (جو تمہیں حاصل ہیں ) کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اِس نظمِ عالَم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ“(آیت ۳۱)۔
اِسی سورۂ یونس میں ایک اور جگہ ہے:  ”جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحان و دشاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھِر گئے،  اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں  کہ اگر تو نے ہمیں اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین  میں بغاوت کر نے لگتے ہیں“(آیات ۲۲ و ۲۳)۔
یہی بات سورۂ بنی اسرائیل میں یوں دُہرائی گئی ہے: ”جب سمندر میں تم مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا  کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تُم اُس سے مُنہ موڑ جاتے ہو “ (آیت ۶۷)۔

اِن آیات کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا رب کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کو طرف تم ہمیں بُلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا ھُوَ اللہُ ، وہ اللہ ہے۔ اِس جواب  سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ  جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبّر و منتظم مانتے ہو، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا ربّ ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں۔ اِس جواب میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ِ کمالیہ آپ سے آپ آجاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابلِ تصوّر ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اُس کا انتظام اور اُس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا، اُس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو، سنتا اور دیکھتا نہ ہو، قادرِ مطلق نہ ہو، علیم اور حکیم نہ ہو، رحیم اور کریم نہ ہو، اور سب پر غالب نہ ہو۔