اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاخلاص حاشیہ نمبر۳

نحوی قواعد کی رُو سے ھُوَ اللہُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں  بیان کی ہیں، مگر ہمارے نزدیک اُن میں سے جو ترکیب اِس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ  ھُوَ   مُبْتَدا ہے، اَللہُ اس کی خبر ہے، اور اَحَد ٌاس کی دوسری خبر۔  اِس ترکیب کے لحاظ سے اِس جملے کا مطلب یہ ہے کہ  ”وہ (جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو) اللہ ہے، یَکتا ہے۔“ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ  ”وہ اللہ ایک ہے۔“
یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اِس جملہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ اَحَد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اِس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ معمولاً یہ لفظ یا تو مُضاف یا مُضاف اِلَیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے یَوُمُ الْاَحَد، ہفتے کا پہلا دن، اور فَا بْعَثُوْٓ ا اَحَدَکُمْ،” اپنے کسی آدمی کو بھیجو۔“ یا نَفْیِ عام کے لیے استعمال ہوتا ہے ، جیسے مَا جَآءَ نِیْٓ اَحَدٌ ” میرے  پاس کوئی نہیں آیا۔“ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے، جیسے ھَلْ عندک اَحَدٌ؟  ” کیا تمہارے پاس کوئی ہے؟“ یا اِسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے، جیسے اِنْ جَاءک احدٌ ،” اگر تمہارے پاس کوئی آئے۔“ یا گِنتی میں بولا جاتا ہے  ، جیسے اَحَدَ ، اِثنانِ، اَحَدَ عَشر، ایک ، دو ، گیارہ۔ اِن استعمالات کے سوا نزولِ قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اِس امر کی کوئی نظری نہیں ملتی کہ محض لفظ اَحَد و صف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بو لا گیا ہو، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اس غیر معمولی طرزِ بیان سے خود بخود یہ ظاہر ہوتاہے کہ یَکتا و یَگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے، موجودات میں سے کوئی دوسرا اِس صفت سے مُتَصِف نہیں ہے۔ وہ ایک ہے، کوئی اُس کا ثانی نہیں۔
پھر جو سوالات مشرکین اور اہلِ کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ربّ کے بارے میں کیے تھے اُن کو  نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ ھُوَ اللہُ  کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر اُن کا جواب کس طرح دیا گیا ہے:
اَوّلًا، اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا ربّ ہے ، کسی دوسرے کا ربُوبیت میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اور چونکہ اِلٰہ (معبود) وہی ہو سکتا ہے جو ربّ (مالک و پروردگار) ہو ، اِس لیے اُلوہیت میں بھی کوئی اُس کا شریک نہیں۔
ثانیاً ، اِس کے معنی یہ بھی ہیں  کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے، تخلیق کے اِس کام میں کوئی  اور اُس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے، نظامِ عالَم کا مدبّر و منتظم ہے، اپنی مخلوقات کا رزق رساں ہے، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے۔ خدائی کے اِن کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعًا کوئی حصّہ نہیں ہے۔

ثالثًا ، چونکہ اُنہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟ اُس کا نسب کیا ہے؟ وہ کس جِنس سے ہے؟ کس سے اُس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟ اور اُس کے بعد کون اُس کا وارث ہو گا؟  اس لیے اُن کے اِن سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالیٰ کے لیے صرف  ایک لفظِ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ (۱) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اُس سے پہلے کوئی خدا تھا، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہو گا۔ (۲) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اُس کا ہم جنس نہیں۔(۳) اُس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ وہ اجزاء سے مُرکَّب وجود نہیں ہے جو قابلِ  تجزیہ و تقسیم ہو، جو کوئی شکل  اور صورت ر کھتا ہو، جو کسی جگہ رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو، جس کا کوئی رنگ ہو، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور رجہت ہو، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیُّر و تبدُّل ہوتا ہو۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور مُنَزَّہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد  ہے۔ (اِس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں ”واحد“  کا لفظ  بالکل اُسی طرح استعمال  ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ” ایک“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے، جیسے ایک آدمی، ایک قوم، ایک ملک، ایک دُنیا، حتّٰی کہ ایک کائنات۔ اور کسی مجموعہ کے ہر جُز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا  جاتا ہے۔  لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے استعمال  نہیں کیا جاتا۔ اِسی لیے قرآن مجید میں  جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا لفظ استعمال  ہوا ہے وہاں اِلٰہ ِ واحد، ایک ہی معبود، یا اَللہُ الْوَ احِدُ الْقَھَّارُ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے، کہا گیا ہے، محض واحد کہیں نہیں کہا گیا، کیونکہ یہ لفظ اُن چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں۔ بخلاف اِس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے اَحَد کا لفظ مطلقًا استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ  و جود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے، جس کی وَحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے)۔