اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفلق حاشیہ نمبر۴

بالفاظ دیگر تمام مخلوقات کے شر سے  میں اُس کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس فقرے میں چند باتیں قابل غور  ہیں: اول یہ کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی ، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی  طرف اور شر کی نسبت مخلواقات کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اُن شرُور سے پناہ مانگتا ہوں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اُن چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اُس نے پیدا کی ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ اُس کا ہر کام خیر اور کسی  مصلحت ہی کے لیے ہوتا ہے ، البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصات اُس نے  اس لیے پیدا کیے ہیں کہ  اُن کی تخلیق  کی مصلحت پوری ہو، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلواقت سے اکثر شرور رنما ہوتا ہے۔
دوم یہ کہ اگر صرف اسی ایک فقرے پر اکتفا کیا جاتا  اور بعد کے فقروں میں خاص خاص قسم کی مخلوقات  کی شُرور سے الگ الگ خدا کی پناہ مانگنے کا نہ بھی ذکر کیا جاتا تو یہ فقرہ مدعا پورا کرنےکے لیے کافی تھا، کیونکہ اس میں ساری مخلوقات کے شر سے خدا کی پناہ مانگ لی گئی ہے ۔ اس عام اِستعاذ ے کے بعد چند مخصوص شرور سے  پناہ مانگنے کا ذکر خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ ویسے تو میں خدا کی پیدا کی ہوئی  ہر مخلوق  کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن خاص طور پر  وہ چند شرور جن کا ذکر سورہ فلق کی باقی آیات اور سورہ ناس میں کیا گیا ہے ، ایسے ہیں جن سے خدا کی  امان پانے کا میں بہت محتاج ہوں۔
سوم یہ کہ مخلوقات کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین“ اور مؤثر ترین استعاذہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو  وہ یہ ہے کہ اُن کے خالق کی پناہ مانگی جائے ، کیونکہ وہ بہر حال اپنی مخلوق پر غالب ہے، اور ان کے ایسے شرور کو بھی جانتا ہے  جنہیں ہم جانتے ہیں اور ایسے شرور سے بھی واقف ہے جنہیں ہم نہیں جانتے۔ لہٰذا اُس کی پناہ گویا اُس حاکم اعلیٰ کی پناہ ہے جس کے مقابلےکی طاقت کسی مخلوق میں نہیں ہے، اور اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سےاپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ، خواہ وہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو ۔ نیز اس میں دنیا ہی کے نہیں آخرت کے بھی ہر شے سے استعاذہ شامل ہے۔
چہارم یہ کہ شر کا لفظ نقصان ، ضرر، تکلیف اور اَلَم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اُن اسباب کے لیے بھی جو نقصان و ضرور اور تکلیف والم کے موجب ہوتے ہیں۔ مثلاً بیماری ، بھوک، کسی حادثے یا جنگ میں زخمی ہونا، آگ سے جل جانا ، سانپ بچھو وغیرہ سے ڈسا جانا، اولاد کی موت کے غم میں مبتلا ہونا، اور ایسے ہی دوسرے شرور پہلے معنی میں شر  ہیں، کونکہ یہ بجائے خود تکلیف اور اذیت ہیں۔ بخلاف اس کے مثال کے طور پر کفر، شرک ، اور ہر قسم کے گناہ اور ظلم دوسرے معنی میں شر ہیں کیونکہ ان کا انجام نقصان اور ضرر ہے اگرچہ بظاہر ان سے فی الوقت کوئی تکلیف نہ پہنچتی ہو، بلکہ بعض گناہوں سے لذت ملتی یا نفع حاصل ہوت ہو۔ پس شر سے پناہ مانگنا اِن دونوں مفہومات کا جامع ہے۔

          پنجم یہ کہ شر سے پناہ مانگنے میں دو مفہوم اور بھی شامل ہیں۔ ایک یہ کہ جو شر واقع ہو چکا ہے، بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کر دے۔ دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں ہوا ہے، بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا مجھے اُس شر سے محفوظ رکھے۔