اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفلق حاشیہ نمبر۷

حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص چلے اور یہ چاہے کہ وہ اُسے سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اُس سے ضرور چِھن جائے۔ البتہ حسد کی تعریف میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جس فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے، یہاں حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اُس حالت میں مانگی  گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے ، یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے۔ کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا جلنا بجائے خود چاہے بُراسہی، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے  ظاہر ہو تو اُس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں اور بھی مددگار ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتو ں پر صبر کرے ، بے صبر ہو  کر ایسی باتیں یا کاروائیاں نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آجائے۔تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہو کر کیسی ہی بیہودہ حرکتیں کرتا رہے ، محسود بہر حال تقویٰ پر قائم رہے ۔ چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اُس کی فکر سے بالکل فارغ کر لے اور اُص کو اِس طرح نظر انداز کر دے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اُس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسود اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کر سکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے، قطع نظر اِس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اِس نیک رویّہ سے مٹتی ہے یا نہیں۔ چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس بات پر ثابت قدم رہے، کیونکہ جس دل میں توحید بسی ہو ئی ہو اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پاسکتا۔