اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر ۵۱

 یہ عرب کی قدیم ترین  قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زوعام تھے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے  واقف تھا۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی ۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ  بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیّات کہتے ہیں۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو  آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے اُفتادہ پڑی ہوئی ہو اُسے عادیُّ الارض کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ عرب کے  ماہرینِ انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بنی ذُہل بن شیَبان کے ایک صاحب آئے جو عاد کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور نہوں نے وہ قصے حضور کو سنائے جو اس قوم کے متعلق قدیم زمانوں سے ان کے علاقہ کے لوگوں میں نقل ہوتے چلے آرہے تھے۔
قرآن کی رو سے اس قوم کا اصل مسکن اَحقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن ور یمامہ کے درمیان الرَّبع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کےمغربی سوا حل اور عُمان و حضر موت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکّہ رواں کردیا تھا۔ تا ریخی حیثیت سے اس قوم کے آثار دنیا سے تقریباً نا پید ہو چکے ہیں، لیکن جنوبی عرب میں کہیں کہیں کچھ پرنے کھنڈر موجود  ہیں جنہیں عاد کی طرف نسبت دی جاتی ہے حضرموت میں ایک مقام پر حضرت ہود علیہ السلام کی قبر بھی مشہور ہے۔ ۱۸۳۷ ء میں  ایک انگریز بحری افسر     ( James R. Wellested )کو حِصنِ غُراب میں ایک پُرانا کتبہ ملا تھا جس میں حضرت ہود علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو شریعت ہود کے پیرو تھے۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو الاحقاف حاشیہ ۲۵)